شام گزری ہے ابھی غم کی سحر باقی ہے
شام گزری ہے ابھی غم کی سحر باقی ہے
اک سفر ختم ہوا ایک سفر باقی ہے
کس طرح گھر میں کہوں اپنے شکستہ گھر کو
کوئی دیوار سلامت ہے نہ در باقی ہے
زرد آتا ہے نظر خوف خزاں سے وہ بھی
ایک پتا جو سر شاخ شجر باقی ہے
اب جلائیں بھی دوبارہ تو وہ شاید نہ جلیں
جن چراغوں پہ ہواؤں کا اثر باقی ہے
کیوں رہے تشنۂ خوں وہ بھی ہمارے ہوتے
تیرے ترکش میں کوئی تیر اگر باقی ہے
ختم ہوتے ہی میں آتی نہیں راہ منزل
عمر بھر چلتے رہے پھر بھی سفر باقی ہے
دشت کی خاک ہوا جسم تو کب کا خاورؔ
شہر میں اب بھی مرا نام مگر باقی ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.