شام تنہائی دھواں اٹھتا برابر دیکھتے
شام تنہائی دھواں اٹھتا برابر دیکھتے
پھر سر شب چاند ابھرنے کا بھی منظر دیکھتے
جنبش لب میں مری آواز کی تصویر ہے
کاش وہ بھی بولتے لفظوں کے پیکر دیکھتے
ساحلوں پر سیپیاں تھیں اور ہوا کا شور تھا
پانیوں میں ڈوبتے تو کوئی گوہر دیکھتے
کھڑکیوں کی اوٹ سے اندازہ ہو سکتا نہیں
شہر کا احوال تم گھر سے نکل کر دیکھتے
آنے والوں کے لیے دروازے رہتے ہیں کھلے
جانے والے بھی کبھی مڑ کر سوئے در دیکھتے
بارشوں میں بھیگنا جسموں کا اجلا بانکپن
راستوں کی گرد بھی یہ لوگ سر پر دیکھتے
وہ جنہیں دستار کی حسرت رہی ہے عمر بھر
میرے شانوں پر کبھی اخترؔ مرا سر دیکھتے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.