شبیہ روح کچھ ایسے نکھار دی گئی ہے
شبیہ روح کچھ ایسے نکھار دی گئی ہے
انا فقیروں کے کاسے پہ وار دی گئی ہے
تمہارے دل پہ بھی کچھ تو اثر ہوا ہوگا
گرے پڑے ہوئے لفظوں کو دھار دی گئی ہے
ہماری آنکھ کے آنسو ثبوت ہیں اس کا
ہنسی ہمارے لبوں کو ادھار دی گئی ہے
مرے بدن کے قفس آسماں سے پھر اس بار
زوال صبح کی سرخی گزار دی گئی ہے
بلند قامتی چبھنے لگی تھی دنیا کو
سو میرے کاندھوں سے گردن اتار دی گئی ہے
نمو کے آخری امکان ڈھونڈھنے کے لئے
مجھے زمیں بھی خلاؤں کے پار دی گئی ہے
طویل ہجر کی مدت بھی ہم فقیروں کو
خلوص دل سے بصد اختصار دی گئی ہے
ہماری روح تو کچے مکان میں خوش تھی
تو کیوں بدن کو حیات مزار دی گئی ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.