شمس معدوم ہے تاروں میں ضیا ہے تو سہی
شمس معدوم ہے تاروں میں ضیا ہے تو سہی
چاندنی رات میں مد مست ہوا ہے تو سہی
خواہش عشق کی تکمیل کہاں ہوتی ہے
گرچہ وہ شوخ نہیں شوخ نما ہے تو سہی
آہٹیں جاگ کے تاریخ کو دستک دیں گی
آس کے سینے میں ایک زخم ہرا ہے تو سہی
صبح کی راہ میں ظلمات کے سنگ آتے ہیں
میں نے ہر سنگ کو ٹھوکر پہ رکھا ہے تو سہی
ہاں اسی عقدے سے الجھا ہے تخیل کا شعور
یعنی الجھا ہوا ہاتھوں میں سرا ہے تو سہی
جنبش لب سے مرے دار پہ سر آتے ہیں
پھر بھی کچھ راز فضاؤں میں کھلا ہے تو سہی
گرچہ میں ہادی و رہبر نہیں ہوں عالمؔ کا
پھر بھی ہاتھوں میں میرے ایک عصا ہے تو سہی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.