سکھا سکی نہ جو آداب مے وہ خو کیا تھی
سکھا سکی نہ جو آداب مے وہ خو کیا تھی
جو یہ نہ تھا تو پھر اس درجہ ہاو ہو کیا تھی
جو بار دوش رہا سر وہ کب تھا شوریدہ
بہا نہ جس سے لہو وہ رگ گلو کیا تھی
پھر ایک زخم کشادہ جو دل کو یاد آ جائے
وہ لذت و خلش سوزن و رفو کیا تھی
جو اذن عام نہ تھا والیان مے خانہ
یہ سب نمائش پیمانہ و سبو کیا تھی
اگر نگاہ جہاں کے شمار میں نہ تھے ہم
تو پھر ہماری یہ شہرت بھی چار سو کیا تھی
نہ خون شب تھا نہ شب خوں یہ مان لیں لیکن
شفق طلوع سحر کو لہو لہو کیا تھی
جب آ رہی ہیں بہاریں لیے پیام جنوں
یہ پیرہن کو مرے حاجت رفو کیا تھی
تمہیں شکایت اہل وطن ہے کیوں صاحب
خود اپنے شہر میں غالبؔ کی آبرو کیا تھی
- Sukhan Mere Tumhare Darmiyan
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.