ستم ظریفی کی صورت نکل ہی آتی ہے
ستم ظریفی کی صورت نکل ہی آتی ہے
رقیب کی بھی ضرورت نکل ہی آتی ہے
قدم رکھیں تو کہاں آب و ریگ و خاک پہ ہم
سبھی جگہ کوئی تربت نکل ہی آتی ہے
حساب قرب و کشش کر کے کیوں ہوں شرمندہ
مرے لہو کی تو قیمت نکل ہی آتی ہے
ہے پل صراط کی ہی بو نسائی راہ جہاں
یہاں بھی حشر کی حالت نکل ہی آتی ہے
بڑے زمانے سے ہوں دشمنوں کی آنکھوں میں
کسی میں چشم مروت نکل ہی آتی ہے
میں مرکزہ ہوں مگر مرکزہ بھنور کا ہوں
کسی بھی موج سے قربت نکل ہی آتی ہے
یہ شاعری ہے پڑوسی کے پتھروں کے سبب
تراشتا ہوں تو جدت نکل ہی آتی ہے
- کتاب : Teksaal (Pg. 95)
- Author : Tafzeel Ahmad
- مطبع : kasauti Publication (2016)
- اشاعت : 2016
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.