سوا ہے حد سے اب احساس کی گرانی بھی
سوا ہے حد سے اب احساس کی گرانی بھی
گراں گزرنے لگی ان کی مہربانی بھی
کس اہتمام سے پڑھتے رہے صحیفۂ زیست
چلیں کہ ختم ہوئی اب تو وہ کہانی بھی
لکھو تو خون جگر سے ہوا کی لہروں پر
یہ داستاں انوکھی بھی ہے پرانی بھی
کسی طرح سے بھی وہ گوہر طلب نہ ملا
ہزار بار لٹائی ہے زندگانی بھی
ہمیں سے انجمن عشق معتبر ٹھہری
ہمیں کو سونپی گئی غم کی پاسبانی بھی
یہ کیا عجب کہ وہی بحر نیستی میں گری
نفس کی موج میں مستی بھی تھی روانی بھی
شعور و فکر سے آگے ہے چشمۂ تخلیق
ہٹے گا سنگ تو بہنے لگے گا پانی بھی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.