سخن کی شب لہو ہوتی رہے گی
سخن کی شب لہو ہوتی رہے گی
کسی سے گفتگو ہوتی رہے گی
وہ سورج ہے تو ہو نزدیک جاں بھی
یہ تابش چار سو ہوتی رہے گی
دریدہ دامنی ہے بے کلی سے
اسی سے یہ رفو ہوتی رہے گی
کوئی غنچہ سوار کہکشاں تھا
خبر یہ کو بہ کو ہوتی رہے گی
میں اکثر سوچتا رہتا ہوں کب تک
زمیں بے آبرو ہوتی رہے گی
سمندر کے کنارے مل رہے ہیں
یہ دنیا آب جو ہوتی رہے گی
خزینے کائناتی کم نہ ہوں گے
نمود جستجو ہوتی رہے گی
نہال عشق افسردہ نہ ہوگا
تمنائے نمو ہوتی رہے گی
نہ وہ ہوگا نہ ہم لیکن یہ دنیا
حریص رنگ و بو ہوتی رہے گی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.