سنی نہ دشت یا دریا کی بھی کبھی میں نے
سنی نہ دشت یا دریا کی بھی کبھی میں نے
کہ بے خودی میں گزاری ہے زندگی میں نے
بتائی موت کے سائے میں زندگی اپنی
بنا ہی زہر کے کر لی ہے خودکشی میں نے
ندی ہو تال سمندر یا دشت ہو کوئی
سبھی کے لب پہ ہی دیکھی ہے تشنگی میں نے
کبھی تو میرا کہا مان زندگی میری
تری خوشی میں ہی پائی ہے ہر خوشی میں نے
کبھی ہے سرد کبھی گرم سے لباسوں میں
ہوا کو دی ہے کئی بار اوڑھنی میں نے
ترے لیے تو زمیں آسمان ایک کیے
کہاں کہاں نہ تلاشا تجھے خوشی میں نے
ادھیڑتا ہی رہا تو یقین کی چادر
تمام عمر رفو کی سلائی کی میں نے
تمہاری یاد کے پودے لگا کے اس دل میں
فضائے دل میں بھی خوشبو سی گھول دی میں نے
گلاب کی کلی سیماؔ نکھر گئی جب جب
تمہارے عشق کی شبنم کی بوند پی میں نے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.