سنیے پیام شمس و قمر رقص کیجیے
سنیے پیام شمس و قمر رقص کیجیے
اس دائرے میں شام و سحر رقص کیجیے
پاکیزگی فضا کی ترنم نسیم کا
کیا چاندنی ہے پچھلے پہر رقص کیجیے
تالی بجا رہے ہیں شگوفے نئے نئے
آواز دے رہے ہیں شجر رقص کیجیے
کیا چھپ چھپا کے چھت کے تلے ناچ میں مزا
عریاں نکل کے در سے بدر رقص کیجیے
جی چاہتا ہے آج فرشتوں سے بھی کہوں
پرواز کیا ہے کھینچ کے پر رقص کیجیے
فرصت نہیں فقیہ کو زر کی تلاش سے
مطلق نہ کیجے خوف و خطر رقص کیجیے
گر اضطرار قابل تعزیر ہے تو ہو
ہے اپنے بس میں خیر نہ شر رقص کیجیے
دوزخ جلا کے درد کا اور آگہی کی آگ
دونوں کے درمیان اتر رقص کیجیے
تنہائیوں کے گیت نہ سب کو سنائیے
پاؤں ملا کے جوڑ کے سر رقص کیجیے
مت پوچھیے کہ پیار کا انجام کیا ہوا
پیارا چلا گیا ہے کدھر رقص کیجیے
مانند قیس ریت نہ صحرا کی چھانیے
کس کو ملی ہے کس کی خبر رقص کیجیے
کیجے طواف کوچۂ جاناں کو تیز تر
مضمر ہے اس میں سیر و سفر رقص کیجیے
سیدؔ قرار کو تو پڑی ہے تمام عمر
اک اور بھی غزل ہے اگر رقص کیجیے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.