سرخ موسم کی کہانی ہے پرانی ہو نہ ہو
سرخ موسم کی کہانی ہے پرانی ہو نہ ہو
آسماں کا رنگ آگے آسمانی ہو نہ ہو
خواب میں مجھ کو نظر آتی ہیں بھیگی سیپیاں
آنکھ کھلنے پر تری آنکھوں میں پانی ہو نہ ہو
ساتھ ہوتی ہے مرے ہر گام پر سنجیدگی
ہو رہی ہے دور اب مجھ سے جوانی ہو نہ ہو
ہر جگہ نکلے گی تیری بات مجھ کو دیکھ کر
تذکرہ تیرا کہیں میری زبانی ہو نہ ہو
روشنی دیتے رہیں گے مجھ کو زخموں کے چراغ
اب اندھیرے میں کہیں سے ضو فشانی ہو نہ ہو
اک طرف میری انا ہے اک طرف تیری خوشی
آ گیا میرے لیے پل امتحانی ہو نہ ہو
زہر کا پانی میں ہونا طے شدہ ہے احترامؔ
آگہی کے گھاٹ پر دریا میں پانی ہو نہ ہو
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.