سولی پہ جان اٹکی ہے مرتا مریض ہوں
سولی پہ جان اٹکی ہے مرتا مریض ہوں
زخموں سے لطف لیتا انوکھا مریض ہوں
باتیں محبتوں کی مرے سامنے نہ کر
تو جانتا بھی ہے کہ میں دل کا مریض ہوں
پاگل کیا ہے عشق نے آدھا جو رہ گیا
اب آدھے سر کے درد کا پورا مریض ہوں
پھر میرا ٹھیک ہونے کو دل ہی نہیں کیا
اس نے مجھے کہا تھا میں اچھا مریض ہوں
وہ خوش ہے میری ظاہری حالت کو دیکھ کر
اس کو خبر نہیں کہ میں کتنا مریض ہوں
تم دوستوں کے واسطے بے شک بڑا سہی
اس کی نظر میں میں ابھی چھوٹا مریض ہوں
بیمار کربلا کے ہے صدقے شفا ملی
مولا سے جا کے پوچھیں میں کیسا مریض ہوں
پہلے بھی میرے گاؤں میں گھائل ہیں تین شخص
آزار آگہی کا میں چوتھا مریض ہوں
اس نے حسیبؔ مجھ کو مسیحا سمجھ لیا
میں نے ہزار بار کہا تھا مریض ہوں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.