طبع حساس مری خار ہوئی جاتی ہے
طبع حساس مری خار ہوئی جاتی ہے
بے حسی عشرت کردار ہوئی جاتی ہے
یہ خموشی یہ گھلاوٹ یہ بچھڑتے ہوئے رنگ
شام اک درد بھرا پیار ہوئی جاتی ہے
اور باریک کئے جاتا ہوں میں موئے قلم
تیز تر سوزن اظہار ہوئی جاتی ہے
کچھ تو سچ بول کہ دل سے یہ گراں بوجھ ہٹے
زندگی جھوٹ کا طومار ہوئی جاتی ہے
جادۂ فن سے گزرنا بھی کشاکش ہے تمام
راہ خود راہ کی دیوار ہوئی جاتی ہے
سوچ کی دھوپ میں جل اٹھنے کو جی چاہتا ہے
اپنے لفظوں سے بھی اب عار ہوئی جاتی ہے
زیست یوں شام کے لمحوں سے گزرتی ہے کبھی
خود بہ خود شرح غم یار ہوئی جاتی ہے
کم سے کم پھونک ہی دے بجھتی ہوئی راکھ میں سازؔ
آخری سانس بھی بے کار ہوئی جاتی ہے
- کتاب : khamoshi bol uthi hai (Pg. 52)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.