تہ گرداب تو بچنا مرا دشوار ہے پھر بھی
تہ گرداب تو بچنا مرا دشوار ہے پھر بھی
کنارے دور ہیں ٹوٹی ہوئی پتوار ہے پھر بھی
تھکن سے چور ہوں، سر رکھ دیا ہے اس کے سینے پر
مجھے معلوم ہے یہ ریت کی دیوار ہے پھر بھی
متاع رشتۂ جاں کاروبار منفعت کب تھی
خریداروں کے حلقے میں سر بازار ہے پھر بھی
مری مٹھی میں نازک پنکھڑی محفوظ رہتی ہے
بچانا سنگ باری میں اسے دشوار ہے پھر بھی
ترے لہجے کی شبنم جذب کر دے کچھ نمی اس میں
اگرچہ دل سلگتی ریت کا انبار ہے پھر بھی
چراغ آرزو ہے منتظر دہلیز پر میری
وہ دوری کے دھندلکوں میں بہت لاچار ہے پھر بھی
سمندر تشنگی کا اب سراب عشق میں ضم ہے
شکستہ حال میرا شیشۂ پندار ہے پھر بھی
یہ مٹی چاک پر تھمتی نہیں ہے، اتنی گیلی ہے
کٹھن یہ مرحلہ ہے، کوزہ گر لاچار ہے پھر بھی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.