تمام جسم کی پرتیں جدا جدا کرکے
جئے چلے گئے قسطوں میں لوگ مر مر کے
ہر ایک موج مرے پاؤں چھو کے لوٹ گئی
کہیں یہ خواب نہ ہوں نیند کے سمندر کے
مری کمان میں ہیں نا توانیاں میری
خود اپنی ذات پہ ہیں تیر میرے تیور کے
عجب حسین خیالوں کو ذہن پالتا ہے
تراشتا ہے صنم بھی تو سنگ مرمر کے
بھٹک رہی ہے کہاں روح سوچنا ہوگا
نکل گئی تھی کبھی قید جسم سے ڈر کے
میں حادثات کو ہر گام پر بلاتا ہوں
بہت شکستہ ہیں دیوار و در مقدر کے
فضاؔ !ضرور کوئی تازہ گل کھلائے گا
قلم نے خون مرا پی لیا ہے جی بھر کے
- کتاب : Saughat Dusri Aur Teesri Kitab (Website) (Pg. 14)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.