تسلی کو ہماری باغباں کچھ اور کہتا ہے
تسلی کو ہماری باغباں کچھ اور کہتا ہے
گلستاں سے مگر اڑتا دھواں کچھ اور کہتا ہے
بہم کچھ سازشیں پھر ہو رہی ہیں برق و باراں میں
ہر اک طائر سے لیکن آشیاں کچھ اور کہتا ہے
سمجھتے ہیں خدا معلوم کیا کچھ کارواں والے
زباں میں اپنی میر کارواں کچھ اور کہتا ہے
نہ پھولو اس طرح سے نغمۂ مرغ خوش الحاں پر
تمہیں آوازۂ بانگ اذاں کچھ اور کہتا ہے
مگر محروم زاہد ہو گیا ہے گوش شنوا سے
اسے بت خانے میں حسن بتاں کچھ اور کہتا ہے
یہ خوش فہمی کہ کچھ سمجھے ہوئے ہیں انجمن والے
مگر ہر اک سے رنگ داستاں کچھ اور کہتا ہے
ٹھہر جا ہاں ٹھہر جا جانے والے اس کو سنتا جا
بہ حال نزع تیرا نیم جاں کچھ اور کہتا ہے
مخالف اس کے کچھ کچھ آ رہی ہیں دل کی آوازیں
مگر ہم سے حجاب درمیاں کچھ اور کہتا ہے
نہ رہنا چاہئے گلشن میں مرعوب خزاں ہو کر
کہ ہم سے آج رنگ گلستاں کچھ اور کہتا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.