تیرے لئے ایجاد ہوا تھا لفظ جو ہے رعنائی کا
تیرے لئے ایجاد ہوا تھا لفظ جو ہے رعنائی کا
سر سے لے کر ناخن پا تک عالم ہے زیبائی کا
دل کی ویرانی نے اتنا ذوق سماعت بدلا ہے
غم کی لے میں ڈھل جاتا ہے نغمہ خود شہنائی کا
چاروں طرف سیلاب آدم پھر بھی اکیلا ہوں جیسے
دھیرے دھیرے کھا جائے گا زہر مجھے تنہائی کا
حسن کے کاشانہ میں آ کر سر کو جھکانا پڑتا ہے
عشق کا بندہ ہو کر تجھ کو ذوق ہے کیوں دارائی کا
محنت سب سے بڑی عبادت محنت کش معمار قوم
عہد نو آغاز ہوا ہے ختم ہے دور شاہی کا
رنج و خوشی سرتاجؔ بہم ہیں یہ دنیا کی محفل ہے
غم کی تانیں کہیں پہ جاگیں شور کہیں شہنائی کا
- کتاب : SAAZ-O-NAVA (Pg. 154)
- مطبع : Raghu Nath suhai ummid
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.