تیور بھید بتاتے ہیں یہ نم آلود ہواؤں کے
تیور بھید بتاتے ہیں یہ نم آلود ہواؤں کے
آج ذرا کھل کھیلنے والے ہیں انداز گھٹاؤں کے
کمرہ بند کیا اور سارے ضبط کے بندھن ٹوٹ گئے
آنکھیں ڈھیلی چھوڑیں رستے کھول دیے دریاؤں کے
دوگانہ آزار ہے صاحب ہم جیسوں کی قسمت میں
ہم محتاج رویوں کے اور ہم مجبور اناؤں کے
دیکھ لے کتنے کشٹ اٹھا کر تیرے در تک پہنچا ہوں
دیکھ لے پپڑی ہونٹوں کی اور دیکھ لے چھالے پاؤں کے
کھائیاں ہیں کھڈے روڑے ہیں کنکر پتھر ہیں لیکن
جنت کے رستے لگتے ہیں سارے رستے گاؤں کے
ان کی چاہ میں قریہ قریہ بستی بستی گھوم لیے
ان کی چاہ میں کونے کھدرے چھان لیے صحراؤں کے
ہم جو بزم غیر میں اکثر ان کی باتیں کرتے ہیں
تپتی دھوپ میں لطف لیا کرتے ہیں ٹھنڈی چھاؤں کے
توڑ کے رسم عہد وفا کو آخر چھوڑ ہی جانا تھا
پنجرے میں آ بیٹھے تھے پنچھی آزاد فضاؤں کے
ہم محراب اور منبر والوں کی آنکھوں کو چبھتے ہیں
ہم نے عقل کو رہبر مانا ہم مفرور خداؤں کے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.