ترا جمال ترا حسن کامگار رہے
ترا جمال ترا حسن کامگار رہے
وہ کیا کرے نہ جسے دل پہ اختیار رہے
ہزار کثرت رعنا نے چلمنیں ڈالیں
بہر حجاب تعین وہ آشکار رہے
مری نظر کا تو کیا ذکر خود بہار کے پھول
فریب خوردۂ رنگینیٔ بہار رہے
کسی مقام پہ دل کو سکوں ہو کیا معنی
جو بے قرار ازل ہے وہ بے قرار رہے
اسی نواح میں اہل نظر بھی ممکن ہیں
کچھ اور دیر سر طور انتظار رہے
تمام پھول تھے اور ظرف دامن گلچیں
جو بچ گئے وہ چراغ شب بہار رہے
مری نگاہ میں ہے وہ حریم زیبائی
کنیز بن کے جہاں مریم بہار رہے
خزاں خزاں ہو تو دور بہار کیا معنی
بہار ہو تو خزاں کیوں بنے بہار رہے
جہان حسن کے اسرار پا نہیں سکتا
جو عشق اپنی حدوں تک ہی بے قرار رہے
مری نظر سے وہ جلوے نہ رہ سکے مستور
جو زیر پردۂ پیراہن بہار رہے
چھڑا چکا ہوں میں دست مجاز سے دامن
حقیقت اپنے حجابوں سے ہوشیار رہے
میں موڑتا ہوں اسی رخ سے کارواں اپنا
کچھ اور دیر افق پر ابھی غبار رہے
جنون شوق میں تحقیق رنگ و بو کیسی
رہے چمن میں تو دیوانۂ بہار رہے
ہیں اس طرح کے ضوابط بھی بے قراری میں
کہ تیرے ساتھ زمانہ بھی بے قرار رہے
وہ صرف میرے ہیں احسانؔ میں فقط ان کا
ہے ناگوار کسی کو تو ناگوار رہے
- کتاب : Ghazaliyat-e-ahsaan Danish (Pg. 315)
- Author : Shabnam Parveen
- مطبع : Asghar Publishers (2006)
- اشاعت : 2006
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.