ترے خیال تری آرزو سے دور رہے
ترے خیال تری آرزو سے دور رہے
نواب ہو کے بھی ہم لکھنؤ سے دور رہے
بدن کے زخم تو چارہ گروں نے سی ڈالے
مگر یہ روح کے چھالے رفو سے دور رہے
زمیں پہ ٹپکا تو یہ انقلاب لائے گا
اسے بتا دو، وہ میرے لہو سے دور رہے
کیا ہے ہم نے تیمم بھی خاک مقتل پر
نماز عشق پڑھی اور وضو سے دور رہے
مری زبان کا چرچا تھا آسمانوں پر
زمین والے مری گفتگو سے دور رہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.