ٹوٹے ہوئے کھلونے نشانی میں دے گیا
ٹوٹے ہوئے کھلونے نشانی میں دے گیا
دھوکہ مجھے وہ عین جوانی میں دے گیا
یہ اور بات مصرع اولیٰ میں کچھ نہیں
لیکن وہ حسن مصرع ثانی میں دے گیا
دریا نے تشنہ لب سے سیاست عجیب کی
کچھ زہر بھی ملا کے وہ پانی میں دے گیا
لایا ہزار خوشیاں مجھے سونپنے مگر
پھر کیوں یہ رنج ریشہ داوانی میں دے گیا
کرنا پڑا نہ ہم کو ضعیفی کا انتظار
وہ درد اتنے ہم کو جوانی میں دے گیا
انورؔ کا حال آ کے کوئی دیکھ لے ذرا
کاغذ کے پھول کوئی نشانی میں دے گیا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.