عمر میں اس سے بڑی تھی لیکن پہلے ٹوٹ کے بکھری میں
عمر میں اس سے بڑی تھی لیکن پہلے ٹوٹ کے بکھری میں
ساحل ساحل جذبے تھے اور دریا دریا پہنچی میں
شہر میں اس کے نام کے جتنے شخص تھے سب ہی اچھے تھے
صبح سفر تو دھند بہت تھی دھوپیں بن کر نکلی میں
اس کی ہتھیلی کے دامن میں سارے موسم سمٹے تھے
اس کے ہاتھ میں جاگی میں اور اس کے ہاتھ سے اجلی میں
اک مٹھی تاریکی میں تھا اک مٹھی سے بڑھ کر پیار
لمس کے جگنو پلو باندھے زینہ زینہ اتری میں
اس کے آنگن میں کھلتا تھا شہر مراد کا دروازہ
کنویں کے پاس سے خالی گاگر ہاتھ میں لے کر پلٹی میں
میں نے جو سوچا تھا یوں تو اس نے بھی وہی سوچا تھا
دن نکلا تو وہ بھی نہیں تھا اور موجود نہیں تھی میں
لمحہ لمحہ جاں پگھلے گی قطرہ قطرہ شب ہوگی
اپنے ہاتھ لرزتے دیکھے اپنے آپ ہی سنبھلی میں
- کتاب : kulliyat dusht-e-qais main laila (Pg. 680)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.