ان سے دل ملتے ہی فرقت کی بلا بھی آئی
ان سے دل ملتے ہی فرقت کی بلا بھی آئی
جان آنے بھی نہ پائی کہ قضا بھی آئی
اب تو تم گور غریباں کو چلو بے پردہ
اس کی شمعوں کو ہوا جا کے بجھا بھی آئی
ہجر میں عرش سے ناکام دعا ہی نہ پھری
نارسا ہو کے مری آہ رسا بھی آئی
بات پوری نہ سنی ہم نے کبھی ناصح کی
ٹوک اٹھے اپنی سمجھ میں جو ذرا بھی آئی
پھیر لی رخ سے نظر اس نے کس انداز کے ساتھ
آئنے میں جو نظر اپنی ادا بھی آئی
دیکھ کر حال مرا ان سے ہنسی رک نہ سکی
روکنے کے لئے ہر چند حیا بھی آئی
نعش پہ آ کے مری اس نے وہ باتیں چھیڑیں
ہر عزادار کو عبرت بھی حیا بھی آئی
نگہ شوق نے کیا راز نہاں فاش کیا
ہم سے پردہ بھی ہوا آج حیا بھی آئی
نزع میں آ کے مری صرف یہ پوچھا اس نے
اب بتاؤ کسی مصرف میں وفا بھی آئی
دل ہی خستہ نہ ہوا لشکر غم کے ہاتھوں
بلکہ اس معرکے میں کام دعا بھی آئی
دعویٰ سحر بیانی ہے عبث اے راغبؔ
میرؔ صاحب کی تمہیں طرز ادا بھی آئی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.