ان سے وہ رسم ملاقات چلی جاتی ہے
ان سے وہ رسم ملاقات چلی جاتی ہے
یہ بھی سو بات میں اک بات چلی جاتی ہے
وہی بے مہرئی دنیا کی شکایت ہے جو تھی
وہی بے کیفیٔ حالات چلی جاتی ہے
دل سے کس طرح ہٹے سایۂ وحشت کی ابھی
ان نگاہوں کی کرامات چلی جاتی ہے
میری آشفتہ مزاجی پہ وہ ہنس دیتے ہیں
یوں بھی اک طرز مدارات چلی جاتی ہے
جب سے اس بزم کا دستور بنی مہر لبی
رسم ایہام و اشارات چلی جاتی ہے
نام مرنے پہ بھی ہے ان کے وفاداروں میں
کام رک جائے مگر بات چلی جاتی ہے
ہوتا آیا ہے غم زیست عبارت ان سے
گرمیٔ بزم خیالات چلی جاتی ہے
آہ بھر لیجئے رو لیجئے کہہ لیجئے شعر
وہ گراں باریٔ جذبات چلی جاتی ہے
ہم کہاں بزم گہہ ناز کہاں پھر یہ غزل
عرض احوال و شکایات چلی جاتی ہے
- کتاب : Kulliyat-e-Baqir (Pg. 409)
- Author : Sajjad Baqir Rizvi
- مطبع : Sayyed Mohammad Ali Anjum Rizvi (2010)
- اشاعت : 2010
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.