Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

انس ہے خانۂ صیاد سے گلشن کیسا

تعشق لکھنوی

انس ہے خانۂ صیاد سے گلشن کیسا

تعشق لکھنوی

MORE BYتعشق لکھنوی

    انس ہے خانۂ صیاد سے گلشن کیسا

    ناز پرورد قفس ہوں میں نشیمن کیسا

    ہم وہ عریاں ہیں کہ واقف نہیں اے جوش جنوں

    نام کس شے کا گریبان ہے دامن کیسا

    اپنی آزردہ دلی بعد فنا کام آئی

    ڈھیر یہاں گرد کدورت کے ہیں مدفن کیسا

    کہہ دیا بس کہ تری آہ میں تاثیر نہیں

    یہ نہ دیکھا کہ یہ سینہ میں ہے روزن کیسا

    چھٹ کے اس پھول سے برباد پڑے پھرتے ہیں

    ہم تو اب طائر نگہت ہیں نشیمن کیسا

    دل اسے دے کے چلے ملک عدم کو بے خوف

    مال رکھتے نہیں اندیشۂ رہزن کیسا

    دل بے تاب کی ہے سینۂ سوزاں میں صدا

    اصل پارہ کی ہے کیا دانۂ گل خن کیسا

    تھا کبھی دور اسیران قفس اے صیاد

    اب تو اک پھول کی محتاج ہیں گلشن کیسا

    چار دن میں یہ زمانہ بھی گزر جائے گا

    ابھی روئیں گے جوانی کو لڑکپن کیسا

    سخت جاں ہیں تری تلوار سے کیا خوف ہمیں

    سختیٔ مرگ سے دبتے نہیں آہن کیسا

    جل گئے صورت پروانہ تب عشق سے ہم

    پھینک دے لاش اٹھا کر کوئی مدفن کیسا

    ایک دن ابلق ایام کرے گا پامال

    مجھ سے رہ رہ کے بگڑتا ہے یہ توسن کیسا

    عشق سے کام نہ تھا حسن کی پروا بھی نہ تھی

    یاد آتا ہے جوانی میں لڑکپن کیسا

    کھیلتے ہو دل بے تاب سے پھولوں کی طرح

    اور ہوتا ہے مری جان لڑکپن کیسا

    شمع سے آپ کے سوزاں یہ سنا کرتے ہیں

    کوئی محتاج کفن بھی نہ ہو مدفن کیسا

    چاہتا ہوں کوئی دیکھے نہ تیری تیغ کے زخم

    چشم جراح ہے کیا دیدۂ سوزن کیسا

    نقش پا ہیں ہوس نام و نشاں خاک نہیں

    ہم تو اٹھنے کے لیے بیٹھے ہیں مسکن کیسا

    آندھیاں گرم جو چلتی ہیں مری آہوں سے

    منہ چھپاتا ہے چراغ تہ دامن کیسا

    سینہ اپنا ہے ہمارا دل سوزاں اپنا

    شمع فانوس و چراغ تہ دامن کیسا

    دور جب سے صفت برگ خزاں دیدہ ہے

    یاد آتا ہے شب و روز وہ گلشن کیسا

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے