اس کو یہ ضد ہے کہ رہ جائے بدن سر نہ رہے
اس کو یہ ضد ہے کہ رہ جائے بدن سر نہ رہے
گھومتی جائے زمیں اور کوئی محور نہ رہے
اس نے ہمت جو بڑھائی بھی تو رکھا یہ لحاظ
کوئی بزدل نہ بنے کوئی دلاور نہ رہے
اس نے اس طرح اتاری مرے غم کی تصویر
رنگ محفوظ تو رہ جائیں پہ منظر نہ رہے
اس نے کس ناز سے بخشی ہے مجھے جائے پناہ
یوں کہ دیوار سلامت ہو مگر گھر نہ رہے
اب یہ سازش ہے کہ لکھے نہ کوئی قصۂ دل
لفظ رہ جائے مگر کوئی سخن ور نہ رہے
اب کے آندھی بھی چلی جب تو سلیقے سے چلی
یوں کہ رہ جائے شجر شاخ ثمر ور نہ رہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.