اسی کے قرب میں رہ کر ہری بھری ہوئی ہے
اسی کے قرب میں رہ کر ہری بھری ہوئی ہے
سہارے پیڑ کے یہ بیل جو کھڑی ہوئی ہے
ابھی سے چھوٹی ہوئی جا رہی ہیں دیواریں
ابھی تو بیٹی ذرا سی مری بڑی ہوئی ہے
بنا کے گھونسلہ چڑیا شجر کی بانہوں میں
نہ جانے کس لیے آندھی سے ڈری ہوئی ہے
ابھی تو پہلے سفر کی تھکن ہے پاؤں میں
کہ پھر سے جوتی پہ جوتی مری پڑی ہوئی ہے
نئی رتوں کے مقدس بلاوے تو ہیں مگر
صلیب وعدوں کی جو رہ میں اک گڑی ہوئی ہے
میں ہاتھ باندھے ہوئے لوٹ آئی ہوں گھر میں
کہ میرے پرس میں اک آرزو مری ہوئی ہے
اگر بچھڑنے کا اس سے کوئی ملال نہیں
شبانہؔ اشک سے پھر آنکھ کیوں بھری ہوئی ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.