اتر کے دھوپ جب آئے گی شب کے زینے سے
اتر کے دھوپ جب آئے گی شب کے زینے سے
اڑے گی خون کی خوشبو مرے پسینے سے
میں وہ غریب کہ ہوں چند بے صدا الفاظ
ادا ہوئی نہ کوئی بات بھی قرینے سے
گزشتہ رات بہت جھوم کے گھٹا برسی
مگر وہ آگ جو لپٹی ہوئی ہے سینے سے
لہو کا چیختا دریا دھیان میں رکھنا
کسی کی پیاس بجھی ہے نہ اوس پینے سے
وہ سانپ جس کو بہت دور دفن کر آئے
پلٹ نہ آئے کہیں وقت کے دفینے سے
دلوں کو موج بلا راس آ گئی شاید
رہی نہ کوئی شکایت کسی سفینے سے
وجود شعلۂ سیال ہو گیا ہے شمیمؔ
اٹھی ہے آنچ عجب دل کے آبگینے سے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.