وادیٔ کن سے غم مرحلہ پیما نکلا
وادیٔ کن سے غم مرحلہ پیما نکلا
میری کشتی کو لیے وقت کا دریا نکلا
پائے ادراک میں چبھتا ہوا کانٹا نکلا
عشق کے دام میں خود اپنا سراپا نکلا
محنت اہل وفا آ ہی گئی کام آخر
ہر شگاف غم ہستی سے سویرا نکلا
عقل کو ناز تھا حد بندیٔ خیر و شر پر
دل نے جانچا تو ہر اک کام ادھورا نکلا
اس سے ملنے کی فضا صاف نہیں تھی کوئی
ہر گزر گاہ پہ احساس کا پہرا نکلا
تشنگی میں نے بجھا لی یہ ہنر تھا ورنہ
خضر کا دل بھی رہ عمر میں پیاسا نکلا
خواب دیکھا تھا کہاں چمکی ہے تعبیر کہاں
حشر کا دن مری فطرت کا اجالا نکلا
موت کی حد میں بھی مجھ کو نہ دیا اذن قیام
سخت مشکل تری نظروں کا تقاضا نکلا
موجۂ نکہت گیسو جسے سمجھا میں نے
وہ بھی میرے نفس سرد کا جھونکا نکلا
میں تہی دست ہوں بازار وفا میں کوثرؔ
سکہ سکہ زر امید کا کھوٹا نکلا
- کتاب : Nishat-e-Fikr (Pg. 121)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.