وصال یار بھی ہے دور میں شراب بھی ہے
وصال یار بھی ہے دور میں شراب بھی ہے
قمر بھی ہے مرے پہلو میں آفتاب بھی ہے
یہ حسن کی نہیں جادوگری تو پھر کیا ہے
کہ تیری آنکھ میں شوخی بھی ہے حجاب بھی ہے
کسی کو تاب کہاں ہے کہ تجھ کو دیکھ سکے
جو نور ہے ترے رخ پر وہی نقاب بھی ہے
ثبوت عشق کو یہ دو گواہ کافی ہیں
جگر میں داغ بھی ہے دل میں اضطراب بھی ہے
غرور حسن تجھے جس قدر ہو زیبا ہے
خدا کے فضل سے صورت بھی ہے شباب بھی ہے
ستم کی چال ستم کی ادا ستم کی نگاہ
ترے ستم کا ستم گر کوئی حساب بھی ہے
مرے لیے نہیں پینے کی کچھ کمی ساقی
کہ چشم مست بھی ہے ساغر شراب بھی ہے
جلیلؔ نے تمہیں چاہا تو کیا گناہ کیا
تمہیں بتاؤ تمہارا کوئی جواب بھی ہے
- کتاب : Kainat-e-Jalil Manakpuri (Pg. 227)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.