وصال یار تمنائے خام ہے شاید
وصال یار تمنائے خام ہے شاید
یہ دور ہجر ابھی ناتمام ہے شاید
جبین عشق نے جاں پہلی بار سجدہ کیا
ترا نشان قدم وہ مقام ہے شاید
میں جس کتاب کو ہر شام رو کے پڑھتا ہوں
مرے صنم کی زباں کا کلام ہے شاید
تمام زیر زبر پیش اور حرفوں کا
برائے سوز و الم اہتمام ہے شاید
بجھا سکا نہ میں اشکوں سے دل کی آتش کو
مرا فغان فغانوں میں خام ہے شاید
مری نگاہ میں جینا شرف سے مرنا ہے
تری نگاہ میں یہ سب حرام ہے شاید
میں آج پھر اسی مٹی پہ سجدہ ریز ہوا
مرے غرور کا یہ اختتام ہے شاید
تمہارے عشق کی روداد سن کے لگتا ہے
ترے صنم کا بھی نقاشؔ نام ہے شاید
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.