وہ اپنے شہر فراغت سے کم نکلتا ہے
وہ اپنے شہر فراغت سے کم نکلتا ہے
نکل بھی آئے تو فرصت سے کم نکلتا ہے
میں خانقاہ کے باہر کھڑا ہوں مدت سے
یہاں بھی کام عقیدت سے کم نکلتا ہے
فلک کی سیر کے پیغام آتے رہتے ہیں
بدن ہی خاک کی دہشت سے کم نکلتا ہے
سنبھل سنبھل کے تو چلتا ہے وہ ستارہ بھی
تمہاری جیسی نزاکت سے کم نکلتا ہے
میں ناپتا ہوں تو ہر بار رقبۂ افلاک
مری نگاہ کی وسعت سے کم نکلتا ہے
ہمیشہ عشق کو ہی ماننی پڑی ہے ہار
ہمیشہ حسن ضرورت سے کم نکلتا ہے
یہ نفرتوں کو مٹانے کی ضد رہے باقی
مگر یہ کام محبت سے کم نکلتا ہے
- کتاب : آخری عشق سب سے پہلے کیا (Pg. 101)
- Author : نعمان شوق
- مطبع : ریختہ پبلی کیشنز (2018)
- اشاعت : First
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.