وہ بات جس سے یہ ڈر تھا کھلی تو جاں لے گی
وہ بات جس سے یہ ڈر تھا کھلی تو جاں لے گی
سو اب یہ دیکھیے جا کے وہ دم کہاں لے گی
ملے گی جلنے سے فرصت ہمیں تو سوچیں گے
پناہ راکھ ہماری کہاں کہاں لے گی
یہ آگ جس نے جلائے ہیں شہروں جنگل سب
کبھی بجھے گی تو یہ صورت خزاں لے گی
یہ دن جو تھا یہ رہا ہیں گواہ وعدوں کا
یہ شب جو ہے ترے دعووں کا امتحاں لے گی
اتر گئی ہے مرے جسم میں جو یہ وحشت
نکلتے وقت یہی عمر جاوداں لے گی
ذرا سی خاک لہو دے کے مطمئن ہیں کیوں
ابھی تو راہ سفر رہروؤں کہ جاں لے گی
وسیع اتنی ہے عریانیت یہ جاں کی دیکھ
بدن کے ڈھکنے کو یہ کتنے آسماں لے گی
بریدہ سر کیے جائیں گے سب جواں کردار
وہ چہرہ دیکھنا عاطفؔ یہ داستاں لے گی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.