Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

وہ بھی کیا دن تھے کہ جب اس کا مرا یارانہ تھا

بسمل سعیدی

وہ بھی کیا دن تھے کہ جب اس کا مرا یارانہ تھا

بسمل سعیدی

MORE BYبسمل سعیدی

    وہ بھی کیا دن تھے کہ جب اس کا مرا یارانہ تھا

    آپ سے بیگانہ وہ تھا خود سے میں بیگانہ تھا

    ربط و ضبط باہمی کے ہائے وہ راز و نیاز

    عاشقانہ حسن تھا اور عشق معشوقانہ تھا

    میں اگر گل تھا تو وہ تھا بلبل شیدا مرا

    اور اگر وہ شمع تھا تو اس کا میں پروانہ تھا

    وہ کبھی دیوانہ تھا میرے لیے لیلیٰ کبھی

    میں کبھی اس کے لئے لیلیٰ کبھی دیوانہ تھا

    اس کو تھا دیدار حاصل مجھ کو نظارہ نصیب

    میرے اس کے درمیاں اک جلوۂ جانانہ تھا

    میرے کفر عشق میں تھی ایک ایمانی ادا

    اس کے کافر حسن میں اک عشوۂ ترکانہ تھا

    ساجد و مسجود ہم باہم تھے ہم دونوں کا دل

    کعبے کا کعبہ تھا اور بت خانے کا بت خانہ تھا

    میرے اشک شوق پیہم میں تھی اس کی داستاں

    اس کے انداز تبسم میں مرا افسانہ تھا

    جھوم بھی اٹھی ادھر کیف طرب سے روح ناز

    اور ادھر ہونٹوں ہی پر میرے ابھی پیمانہ تھا

    ہائے وہ شہبائے زلف و کاکل و گیسو کہ جب

    آفتاب صبح بھی اک شمع عشرت خانہ تھا

    شامل انفاس تھے نغمات عیش و انبساط

    زندگی کے ساز کا ہر زیر و بم شاہانہ تھا

    آنکھ سے دل میں سما جاتے تھے دل سے روح میں

    زندگیٔ شوق کا ہر حال بیتابانہ تھا

    ہائے وہ مے خواری باہم کا عالم آہ جب

    اہتمام مے بغیر شیشہ و پیمانہ تھا

    جب ملیں آنکھوں سے آنکھیں جب ملے ہونٹوں سے ہونٹ

    ہر نظر پیمانہ تھی اور ہر نفس مے خانہ تھا

    اف وہ ربط و ضبط شرم و شوق جب با ہم دگر

    ایک جذبہ مشترک تھا اور بیباکانہ تھا

    وہ تقدم شرم کا ہو یا تجاوز شوق کا

    داخل مستثنیات لغزش مستانہ تھا

    اف وہ فرط شوق جس کا نام تھا رنجیدگی

    عالم رنجیدگی کس درجہ محبوبانہ تھا

    برہمی پر ہائے وہ جرمانہ ہائے جرم شوق

    وجہ افزونیٔ شوق جرم ہر جرمانہ تھا

    ہو رہے تھے یوں بسر روز و شب عمر نشاط

    مہر و مہ سے اہتمام زینت کاشانہ تھا

    بے تعلق زندگی ہونے کا تھا امکاں ہی کیا

    زندگی زلف تعلق تھی مقدر شانہ تھا

    رونما لیکن مقدر سے ہوا وہ عشق کے

    جو تلون حسن کی فطرت میں محبوبانہ تھا

    حسن تو ہے اک تجلی شمع ہر محفل صفت

    وہ تو کہہ دے گا یہ اک انداز معشوقانہ تھا

    ہاں مگر کل عشق کو دیکھا کہ وہ شوریدہ بخت

    بڑھ چکا تھا زندگی میں موت سے دیوانہ تھا

    جا رہا تھا بے ارادہ بے خیال سمت و راہ

    اور زباں پر نالۂ موزوں یہ مظلومانہ تھا

    چشم ہے محروم صورت گوش مایوس صدا

    خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا جو سنا افسانہ تھا

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے