وہ حال ہے کہ تلاش نجات کی جائے
وہ حال ہے کہ تلاش نجات کی جائے
کسی فقیر دعا گو سے بات کی جائے
یہ شہر کیسا خوش اوقات تھا اور اب کیا ہے
جو دن بھی نکلے تو وحشت نہ رات کی جائے
کوئی تو شکل گماں ہو کوئی تو حیلۂ خیر
کسی طرح تو بسر اب حیات کی جائے
گھروں میں وقت گزاری کا اب ہے شغل ہی کیا
یہی کہ گفتگوئے حادثات کی جائے
اگر یہی ہے اب ایفائے عہد میں پس و پیش
تو ختم رسم و رہ التفات کی جائے
حصول فتح غرض ہو تو کیا بجا ہے یہ طور
تباہ اس کے لئے کائنات کی جائے
محال ہی میں کچھ آسودگی بحال کریں
کہاں تک آرزوئے ممکنات کی جائے
کچھ ایسے بھی ہیں تہی دست و بے نوا جن سے
ملائیں ہاتھ تو خوشبو نہ ہات کی جائے
- کتاب : Kulliyat-e-Mahshar Badayuni (Pg. 719)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.