وہ خواب جیسا تھا گویا سراب لگتا تھا
وہ خواب جیسا تھا گویا سراب لگتا تھا
حسین ایسا کہ فخر گلاب لگتا تھا
حلیم ایسا کہ دیوانی ایک دنیا تھی
کہ اس سے ہاتھ ملانا ثواب لگتا تھا
نبھانا رشتوں کا نازک کٹھن عمل نکلا
جو دیکھنے میں تو سیدھا حساب لگتا تھا
صراحی دار تھی گردن نشہ بھرے عارض
سراپا اس کا مجسم شراب لگتا تھا
وہ بولتا تو فضا نغمگی میں رچ جاتی
گلے میں ہو کوئی اس کے رباب لگتا تھا
کہانی ایک نئی دیتی ہونٹ کی جنبش
وہ لب جو کھولتا گویا کتاب لگتا تھا
وہ شخص آج گریزاں ہے سائے سے میرے
جسے پسینہ بھی میرا گلاب لگتا تھا
عمل میں فعل میں اس کے تضاد تھا مفتیؔ
اگرچہ دل میں اترتا خطاب لگتا تھا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.