وہ ذمہ داری کتنی خوشی سے نبھائی تھی
وہ ذمہ داری کتنی خوشی سے نبھائی تھی
اس کو سرائی کی زباں میں نے سکھائی تھی
میں نے جہاں پہ پیاس کو سیراب کر دیا
دریا کی ایک لہر مرے ہاتھ آئی تھی
جنگ عرب میں چھوڑ گئے جب حمایتی
کوفہ کے اک جواں نے مری جاں بچائی تھی
عورت سے بحث کرنا سمجھتا تھا بس ہتک
اور نظریاتی لڑکی بھی دل میں بسائی تھی
ایمان کا حساب بھی رکھنا پڑا ہمیں
ذاتی بھلائی میں ہی خدا کی بھلائی تھی
وادی میں ہر سو اگنے لگے پانیوں کے پھول
چشمے پہ کوئی حسن بھری آ نہائی تھی
میں نے چنے ہیں اپنی ہی مرضی کے چند پھول
ورنہ تو میرے حصے میں پوری خدائی تھی
شاید کہ ایک رات کے بعد اور رات ہو
سپنے میں اک جدائی کے بعد اور جدائی تھی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.