یاد ہے روز ازل اس نے کہا کیا کیا کچھ
یاد ہے روز ازل اس نے کہا کیا کیا کچھ
بر خلاف اس کے یہاں تو نے کیا کیا کیا کچھ
حور دی خلد دیا قصر دیا رہنے کو
مجھ گنہ گار کو خالق نے دیا کیا کیا کچھ
سالہا سال بہار چمن عالم نے
رنگ دکھلائے ہیں ہم کو بخدا کیا کیا کچھ
گہ خزاں آئی گلستاں میں کبھی باد بہار
سامنے آنکھوں کے بندے کے ہوا کیا کیا کچھ
تہمت جرم و خطا حرص و ہوا غفلت دل
ہم نے بازار سے ہستی کے لیا کیا کیا کچھ
آسمان مہر فلک روئے زمیں عرش بریں
پیشتر اس سے خدا جانے ہوا کیا کیا کچھ
باب فردوس و در روضۂ رضواں زاہد
بند ان آنکھوں کے ہوتے ہی کھلا کیا کیا کچھ
نزع کے وقت میں پوچھومثال کسی منعم سے
ساتھ کیا اپنے لیا اور رہا کیا کیا کچھ
وقت دل جانے کے ہرگز نہ خبردار کیا
اب سمجھاتی ہے یہ فکر رسا کیا کیا کچھ
شدت رنج و الم صدمۂ دل سوز جگر
فرقت یار میں مجھ پر نہ ہوا کیا کیا کچھ
دیر کو پوجا حرم کو کئے گاہے سجدے
کر لیا زیست میں بے جا و بجا کیا کیا کچھ
جو تلافی نہ ہو محشر میں عجب ہے اس کا
خود ہیں معقول کہ یاں ہم نے کیا کیا کیا کچھ
گوش پر جام کے منہ رات کو رکھ کر اپنا
کس کو معلوم ہے شیشے نے کہا کیا کیا کچھ
داغ دل خون جگر آتش غم درد فراق
ہم کو بھی عشق کی دولت سے ملا کیا کیا کچھ
منتہیؔ زور بدن قوت دل چالاکی
ایک آنے سے ضعیفی کے گیا کیا کیا کچھ
- Deewan-e-MuntahiáKaristan-e-Fasahatâ
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.