یہی نہیں کہ زخم جاں کو چارہ جو ملا نہیں
یہی نہیں کہ زخم جاں کو چارہ جو ملا نہیں
یہ حال تھا کہ دل کو اسم آرزو ملا نہیں
ابھی تلک جو خواب تھے چراغ تھے گلاب تھے
وہ رہ گزر کوئی نہ تھی کہ جس پہ تو ملا نہیں
تمام عمر کی مسافتوں کے بعد ہی کھلا
کبھی کبھی وہ پاس تھا جو چار سو ملا نہیں
وہ جیسے اک خیال تھا جو زندگی پہ چھا گیا
رفاقتیں تھیں اور یوں کہ روبرو ملا نہیں
تمام آئنوں میں عکس تھے مری نگاہ کے
بھرے نگر میں ایک بھی مجھے عدو ملا نہیں
وراثتوں کے ہاتھ میں جو اک کتاب تھی ملی
کتاب میں جو حرف ہے ستارہ خو ملا نہیں
وہ کیسی آس تھی ادا جو کو بہ کو لیے پھری
وہ کچھ تو تھا جو دل کو آج تک کبھو ملا نہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.