یہ بزم شب ہے یہاں علم و آگہی کم ہے
یہ بزم شب ہے یہاں علم و آگہی کم ہے
کئی چراغ جلے پھر بھی روشنی کم ہے
اسی لئے تو مری اس سے دوستی کم ہے
وہ خود پرست زیادہ ہے آدمی کم ہے
یہی بہت ہے کہ پانی کو چھو لیا ہم نے
بڑا ہے بحر محبت شناوری کم ہے
ہوائے گرم چلی یوں کہ بجھ گئے چہرے
گلوں میں اب کے برس بھی شگفتگی کم ہے
کہاں کے عشق و محبت کہاں کے علم و ہنر
خمار شوق زیادہ ہے آگہی کم ہے
خطا ہے اپنی کہ ماحول ہے زمانے کا
نگاہ گرم بہت صلح و آشتی کم ہے
فضا بدلنے سے دل تو بدل نہیں جاتے
وہ انقلاب ہے کیا جس کی زندگی کم ہے
خیال تازہ امڈتے ہیں بادلوں کی طرح
مجھے یہ غم کہ مرا ظرف شاعری کم ہے
مری دعائیں سبھی رائیگاں گئیں نامیؔ
نہ آسمان ہے روشن نہ تیرگی کم ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.