یہ فرقتوں میں لمحۂ وصال کیسے آ گیا
یہ فرقتوں میں لمحۂ وصال کیسے آ گیا
محبتوں میں پھر نیا ابال کیسے آ گیا
جسے جہاں کے مشغلوں میں اپنا ہوش بھی نہ تھا
اچانک آج اسے مرا خیال کیسے آ گیا
ابھی تلک تو میرے سارے زخم تھے ہرے بھرے
یکایک ان کو کار اندمال کیسے آ گیا
جدائی کا بس ایک پل گراں تھا زندگی پہ جب
تو درمیان بحر ماہ و سال کیسے آ گیا
ابھی تلک تھیں وقت کی طنابیں اس کے ہاتھ میں
عدم فراغتوں کا پھر سوال کیسے آ گیا
مرے ذرا سے درد پر تڑپ تھی جس کی دیدنی
اسے ستم گری کا یہ کمال کیسے آ گیا
ندیمؔ اپنی چاہتوں پہ ناز تھا تمہیں بہت
تو پھر تمہارے عشق پر زوال کیسے آ گیا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.