یہ حسرتیں بھی مری سائیاں نکالی جائیں
یہ حسرتیں بھی مری سائیاں نکالی جائیں
کہ دشت ہی کی طرف کھڑکیاں نکالی جائیں
بہار گزری قفس ہی میں ہاؤ ہو کرتے
خزاؤں میں تو مری بیڑیاں نکالی جائیں
یہ شام کافی نہیں ہے سیہ لباسی کو
شفق سے اور ذرا سرخیاں نکالی جائیں
تو بچ رہیں گی برہنہ بدن کی سوغاتیں
محبتوں سے اگر دوریاں نکالی جائیں
مرے جلائے دیوں کا بھی کچھ خیال رہے
جو اس مکاں سے کبھی کھڑکیاں نکالی جائیں
یہ کیسی ضد ہے کہ پہلے بدن سے جاں نکلے
پھر اس کے بعد سبھی سسکیاں نکالی جائیں
تو تم بھی میری طرح لڑکھڑانے لگ جاؤ
اگر تمہاری بھی بیساکھیاں نکالی جائیں
یہ خوں بہا بھی ادا کر چکی ہے خوابوں کا
تو میری آنکھ سے اب کرچیاں نکالی جائیں
نکل پڑے گا مرا سر بھی ساتھ ہی صادقؔ
جو میرے سر سے کبھی پگڑیاں نکالی جائیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.