یہ جتنی دیر ہوئی شیخ کو وضو کرتے
یہ جتنی دیر ہوئی شیخ کو وضو کرتے
ہم اتنی دیر میں خالی خم و سبو کرتے
شکار بھی بط مے کا کنار جو کرتے
وہیں نماز بھی پڑھتے وہیں وضو کرتے
کلیم بات بڑھاتے نہ گفتگو کرتے
لب خموش سے اظہار آرزو کرتے
حسین بھی ہوں خوش آواز بھی فرشتہ قبر
کٹی ہے عمر حسینوں سے گفتگو کرتے
ہماری بھول کا ساگر یہ گل اگر بنتے
تو اور رنگ سے اظہار رنگ و بو کرتے
گراتے یوں ہی سر طور بجلیاں ہم پر
اگر حجاب تھا پردے سے گفتگو کرتے
یہ داغ مے ہیں برے پھیلتے سر دامن
جو آب زمزم و کوثر سے ہم وضو کرتے
ہمیں خدا کے سوا کچھ نظر نہیں آتا
نکل گئے ہیں بہت دور جستجو کرتے
پڑی ہے خوئے صبوحی دراز ہے شب گور
اٹھیں گے حشر کے دن ہم سبو سبو کرتے
مسک گیا ہے کسی کا ذرا سا دامن گل
جگہ جگہ سے سسکتا جو تم رفو کرتے
بقدر ظرف وضو مے جو ملتی پانی سی
سیاہ رو بھی دم حشر شست و شو کرتے
نہ تھا شباب کمر میں ریاضؔ زر ہوتا
تو دن بڑھاپے کے بھی نذر لکھنٔو کرتے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.