یہ کون چھوڑ گیا اس پہ خامیاں اپنی
یہ کون چھوڑ گیا اس پہ خامیاں اپنی
مجھے دکھاتا ہے آئینہ جھریاں اپنی
بنا کے چھاپ لو تم ان کو سرخیاں اپنی
کنویں میں پھینک دی ہم نے تو نیکیاں اپنی
بدلتے وقت کہ رفتار تھامتے ہیں حضور
بدلتے رہتے ہیں اکثر جو ٹوپیاں اپنی
قطاریں دیکھ کے لمبی ہزاروں لوگوں کی
میں پھاڑ دیتا ہوں اکثر سب عرضیاں اپنی
نہیں لحاف غلافوں کی کون بات کرے
تو دیکھ پھر بھی گزرتی ہیں سردیاں اپنی
ذلیل ہوتا ہے کب وہ اسے حساب نہیں
ابھی تو گن رہا ہے وہ دہاڑیاں اپنی
یوں بات کرتا ہے وہ پر تپاک لہجے میں
مگر چھپا نہیں پاتا وہ تلخیاں اپنی
بھلے دنوں میں کبھی یہ بھی کام آئے گا
ابھی سنبھال کے رکھ لو اداسیاں اپنی
ہمیں ہی آنکھوں سے ان کو سنانا آتا نہیں
سنا ہی دیتے ہیں چہرے کہانیاں اپنی
مرے لئے مری غزلیں ہیں کینوس کی طرح
اکیرتا ہوں میں جن پر اداسیاں اپنی
تمام فلسفے خود میں چھپائے رہتی ہیں
کہیں ہیں دھوپ کہیں چھاؤں وادیاں اپنی
ابھی جو دھند میں لپٹی دکھائی دیتی ہیں
کبھی تو دھوپ نہائیں گی بستیاں اپنی
بلند حوصلوں کہ اک مثال ہیں یہ بھی
پہاڑ روز دکھاتے ہیں چوٹیاں اپنی
بھلا رہی ہے تجھے دھوپ دویج پہاڑوں کی
تو کھولتا ہی نہیں پھر بھی کھڑکیاں اپنی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.