یہ کیا گلی ہے جہاں ڈرتے ڈرتے جاتے ہیں
یہ کیا گلی ہے جہاں ڈرتے ڈرتے جاتے ہیں
گزرتے بھی نہیں لیکن گزرتے جاتے ہیں
بس اب تو اگلا سفر خشکیوں کا آتا ہے
ہماری رات کے دریا اترتے جاتے ہیں
جہاں میں کچھ نہیں ہوتا کسی کے کرنے سے
یہ لوگ پھر بھی کوئی کام کرتے جاتے ہیں
یہ کیسا ہم کو اشارہ ہے پار اترنے کا
وہ دیکھو لہروں میں کچھ ہاتھ ابھرتے جاتے ہیں
تمام شہر تو آشوب چشم کا ہے شکار
نہ جانے کس کے لیے ہم سنورتے جاتے ہیں
عجب نظام فنا و بقا کا ہے کہ جہاں
وہ جی اٹھیں گے دوبارہ جو مرتے جاتے ہیں
بھری ہیں دھند سے سارے نگر کی دہلیزیں
نظر میں جگنو ہی جگنو اترتے جاتے ہیں
- کتاب : Lauh-e-Jahan (Pg. 62)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.