یہ قصوں میں جو دکھ اٹھانے بندھے ہیں
یہ قصوں میں جو دکھ اٹھانے بندھے ہیں
سو الفت ہی کے سب فسانے بندھے ہیں
قفس میں سنو لو اسیران کہنہ
بہ ہر شاخ نو آشیانے بندھے ہیں
خدا جانے اس گھر میں کیا ہے کہ جس کے
کئی در کے آگے دوانے بندھے ہیں
وہ آنسو ہیں اپنے کہ سب کی گرہ میں
کئی موتیوں کے خزانے بندھے ہیں
ہوا یہ دیار محبت کی بگڑی
کہ سب رہنے والوں کے شانے بندھے ہیں
ملاقات کیا ہو رہے ٹھور بس ہم
کہ جانے کے واں تو ٹھکانے بندھے ہیں
لگیں کیوں نہ تیر نگہ دل جگر پر
کہ اس چشم کے یہ نشانے بندھے ہیں
فلک تیرے ہاتھوں بڑے تھے جو دانا
سو اب ان کے پلوں میں دانے بندھے ہیں
غضب سادہ رویوں کی ہے سادگی بھی
کہ پھینٹے عجب صوفیانے بندھے ہیں
ہوئی گھر میں شادی تمہارے تو ایسی
کہ جس کے جہاں میں فسانے بندھے ہیں
نہ بلوانے کا ہم کو شکوہ ہے دیکھو
بندھن وار اب تک پرانے بندھے ہیں
بخیل اب یہ منعم نہیں کیونکہ جرأتؔ
کسے جن کے خوانوں میں کھانے بندھے ہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.