یہ صحرائے طلب یا بیشۂ آشفتہ حالی ہے
یہ صحرائے طلب یا بیشۂ آشفتہ حالی ہے
کوئی دریوزہ گر اپنا کوئی تیرا سوالی ہے
حوادث سے نبرد آرائیوں کا کس کو یارا تھا
جنوں اپنا سلامت جس نے ہر افتاد ٹالی ہے
ترے اغماض کی خو سیکھ لی اہل مروت نے
کہ محفل درد کی اب صاحب محفل سے خالی ہے
حضوری ہو کہ مہجوری محبت کم نہیں اس سے
تب اپنا بخت عالی تھا اب اپنا ظرف عالی ہے
نمو کا جوش کچھ نظارہ فرما ہو تو ہو ورنہ
بہار اب کے برس خود پائمال خشک سالی ہے
کسی کے لطف کم کو دیر لگتی ہے سوا ہوتے
چٹکنے تک تو ہر گل کی جبلت انفعالی ہے
شرف اتنا کہ غالبؔ کی زمیں میں ہے غزل گوہرؔ
وہ مضموں آفرینی ہے نہ وہ نازک خیالی ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.