یوں بات کسی کی ہم کب یار اٹھاتے ہیں
یوں بات کسی کی ہم کب یار اٹھاتے ہیں
دل تم کو دیا اس سے لاچار اٹھاتے ہیں
ہم مطلب دل چاہیں گردوں سے یہ کیا ممکن
آزاد منش اس کے کب عار اٹھاتے ہیں
بہکانے سے غیروں کے کیا کیجے علاج اس کا
ہر بات میں وہ مجھ سے تکرار اٹھاتے ہیں
منہ کیا ہے فلک تیرا کوہ غم ہجراں کا
یہ حضرت دل ہی ہیں جو بار اٹھاتے ہیں
ہم تفتہ جگر ظالم ہے کچھ بھی خبر تجھ کو
الفت میں تری کیا کیا آزار اٹھاتے ہیں
اک جنبش ابرو ہی عشاق کو کافی ہے
کیوں قتل کو وہ ان کے تلوار اٹھاتے ہیں
کچھ عیشؔ سنا تو نے اس بزم میں عاشق پر
طوفان نئے کیا کیا اغیار اٹھاتے ہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.