یوں ہی اکثر مجھے سمجھا بجھا کر لوٹ جاتی ہے
یوں ہی اکثر مجھے سمجھا بجھا کر لوٹ جاتی ہے
کسی کی یاد میرے پاس آ کر لوٹ جاتی ہے
میں بد قسمت وہ گلشن ہوں خزاں جس کا مقدر ہے
بہار آتی ہے دروازے سے آ کر لوٹ جاتی ہے
اسے اپنا بنانے میں بھی اک انجان سا ڈر ہے
دعا ہونٹوں تلک آتی ہے آ کر لوٹ جاتی ہے
میں اپنی قید کو ہی اپنی آزادی سمجھ لوں گا
رہائی مجھ کو زنجیریں لگا کر لوٹ جاتی ہے
اگر اتنی ہی سرکش ہے تو مجھ پہ کیوں نہیں گرتی
وحی بجلی جو میرا گھر جلا کر لوٹ جاتی ہے
وہاں پر بھی چراغ آرزو ہم نے جلائے ہیں
جہاں سے روشنی بھی سر جھکا کر لوٹ جاتی ہے
اسے میں دیکھ تو لیتا ہوں لیکن چھو نہیں پاتا
کوئی شے ہے جو میرے پاس آ کر لوٹ جاتی ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.