زمیں ملے کہیں ہمیں کہیں تو آسماں ملے
زمیں ملے کہیں ہمیں کہیں تو آسماں ملے
دکھوں کی دھوپ میں شجر کوئی تو مہرباں ملے
ترے فراق میں جئے ترے فراق میں مرے
چلو یہ خواب ہی سہی وصال کا گماں ملے
الم کی شام آ گئی لو میرے نام آ گئی
چراغ لے کے راہ میں اے کاش مہرباں ملے
ابھی تلک فغاں ہوں میں مثال داستاں ہوں میں
ملے تو ایک پل کبھی کہیں تو کارواں ملے
عجیب سے وہ رنگ تھے سبھی کے ہاتھ سنگ تھے
ہمیں تو غیر بھی سبھی مثال دوستاں ملے
جبیں جبیں نہیں رہی تو مہ جبیں نہیں رہی
نہ لوگ وہ کہیں ملے نہ تجھ کو آستاں ملے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.